سر پر جو سائباں تھے پگھلتے ہیں دھوپ میں
سب دم بخود کھڑے ہوئے جلتے ہیں دھوپ میں
پہچاننا کسی کا کسی کو، کٹھن ہوا
چہرے ہزار رنگ بدلتے ہیں دھوپ میں
بادل جو ہمسفر تھے کہاں کھو گئے کہ ہم
سورج کا قہر ٹوٹ پڑا ہے زمین پر
منظر جو آس پاس تھے جلتے ہیں دھوپ میں
پتے ہلیں تو شاخوں سے چنگاریاں اڑیں
سر سبز پیڑ آگ اگلتے ہیں دھوپ میں
مخمورؔ ہم کو سایۂ ابرِ رواں سے کیا
سورج مکھی کے پھول ہیں، پلتے ہیں دھوپ میں
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment