Thursday, 5 May 2016

سر پر جو سائباں تھے پگھلتے ہیں دھوپ میں

سر پر جو سائباں تھے پگھلتے ہیں دھوپ میں
سب دم بخود کھڑے ہوئے جلتے ہیں دھوپ میں
پہچاننا کسی کا کسی کو، کٹھن ہوا
چہرے ہزار رنگ بدلتے ہیں دھوپ میں
بادل جو ہمسفر تھے کہاں کھو گئے کہ ہم
تنہا سلگتی ریت پہ جلتے ہیں دھوپ میں
سورج کا قہر ٹوٹ پڑا ہے زمین پر
منظر جو آس پاس تھے جلتے ہیں دھوپ میں
پتے ہلیں تو شاخوں سے چنگاریاں اڑیں
سر سبز پیڑ آگ اگلتے ہیں دھوپ میں
مخمورؔ ہم کو سایۂ ابرِ رواں سے کیا
سورج مکھی کے پھول ہیں، پلتے ہیں دھوپ میں

مخمور سعیدی

No comments:

Post a Comment