Thursday, 5 May 2016

کتنے گم کردہ جواہر کا خزینہ نکلا

کتنے گم کردہ جواہر کا خزینہ نکلا
جب زمیں کھود کے دیکھی میرا سینہ نکلا
رات بھر خواب اترتے ہیں ان آنکھوں میں
چاند جب جھیل پہ آیا تو یہ زینہ نکلا
کیسا دشمن ہے کہ سینے سے لگایا پھر بھی
اس کے دل سے نہ کسی طور بھی کِینہ نکلا
بھر گئی زمیں کتنی عجب رنگوں سے
بارشِ موسمِ گل سے وہ دفینہ نکلا
میں نے سوچا تھا کسی ایک کا ہو کر رہ جائے
دل بھی اس شخص کی مانند کمینہ نکلا
جل گیا خون بھی جب حدتِ خواہش سے نسیم
تب کہیں جا کے رگِ جاں سے پسینہ نکلا

افتخار نسیم افتی

No comments:

Post a Comment