کتنے گم کردہ جواہر کا خزینہ نکلا
جب زمیں کھود کے دیکھی میرا سینہ نکلا
رات بھر خواب اترتے ہیں ان آنکھوں میں
چاند جب جھیل پہ آیا تو یہ زینہ نکلا
کیسا دشمن ہے کہ سینے سے لگایا پھر بھی
بھر گئی زمیں کتنی عجب رنگوں سے
بارشِ موسمِ گل سے وہ دفینہ نکلا
میں نے سوچا تھا کسی ایک کا ہو کر رہ جائے
دل بھی اس شخص کی مانند کمینہ نکلا
جل گیا خون بھی جب حدتِ خواہش سے نسیم
تب کہیں جا کے رگِ جاں سے پسینہ نکلا
افتخار نسیم افتی
No comments:
Post a Comment