دردِ حیات تیرے فسانے کہاں گئے
دل جن سے زندہ تھا وہ ترانے کہاں گئے
جن کے طفیل باغ و بہاراں تھی زندگی
وہ دوست وہ حبیب نہ جانے کہاں گئے
آج ممکن ہو پھر تو دیدۂ نم تازہ کریں
عقل کو آج یہ ضد ہے کہ بھُلا دیں تجھ کو
دل کو یہ شوق کہ پھر سے تِرے غم تازہ کریں
وطن سے دوریٔ منزل کا یہ سوال نہیں
وہ بے وطن ہوں کہ جس کا نہیں ہے کوئی وطن
کنارِ سندھ پہ ہم جس کو چھوڑ آئے ہیں
وہ تجھ میں بات کہاں اے دیارِ گنگ و جمن
جگن ناتھ آزاد
No comments:
Post a Comment