گم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کھلی آنکھیں دیکھیں، اک خواب ہو تم اک خواب ہیں ہم
کیا محشر خیز جدائی ہے،۔ کیا وصل قیامت کا ہو گا
جذبات کا اک سیلاب ہو تم،۔ جذبات کا اک سیلاب ہیں ہم
آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اک ساون ہے اک بھادوں ہے
اس وقت تلاطم خیز ہیں ہم، گردش میں تمہیں بھی لے لیں گے
اس وقت نہ تیر اے کشتئ دل، اس وقت تو خود گرداب ہیں ہم
اِک ہنس پرانی یادوں کا،۔۔ بیٹھا ہوا کنکر چنتا ہے
تپتی ہوئی ہجر کی گھڑیوں میں، سوکھا ہوا اک تالاب ہیں ہم
اے چشم فلک! اے چشم زمیں! ہم لوگ تو پھر آنے کے نہیں
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم
کیا اپنی حقیقت، کیا ہستی، مٹی کا ایک حباب ہیں ہم
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment