کہوں کیا کہ عشق کیا ہے عجب اس کا ہے فسانہ
کبھی زیست کا سہارا، کبھی موت کا بہانہ
تِرے آستاں کو چھوڑا تو ملا نہ پھر ٹھکانہ
وہی کاوشِ مسلسل،. وہی گردشِ زمانہ
کبھی گلستاں کا جانچا، کبھی کہکشاں کو پرکھا
یہ چمن بھی کیا چمن ہے، نہیں ہمصفیر کوئی
میں سناؤں بھی تو کس کو یہ نوائے عاشقانہ
تجھے کیا بتاؤں ہمدم کہ قفس میں کیا کشش تھی
یہ بجا مِری نظر سے نہ پرے تھا آشیانہ
یہ بجھی بجھی فضائیں، یہ گھٹا گھٹا سا عالم
مِرے نطق! چھیڑ کوئی طرب آفریں ترانہ
نہ الم ہے دوش کا کچھ، نہ کچھ اشتیاقِ فردا
یہ جو آج سامنے ہے، یہی ہے مِرا زمانہ
جگن ناتھ آزاد
No comments:
Post a Comment