Tuesday 3 May 2016

کہوں کیا کہ عشق کیا ہے عجب اس کا ہے فسانہ

کہوں کیا کہ عشق کیا ہے عجب اس کا ہے فسانہ 
کبھی زیست کا سہارا، کبھی موت کا بہانہ
تِرے آستاں کو چھوڑا تو ملا نہ پھر ٹھکانہ
وہی کاوشِ مسلسل،. وہی گردشِ زمانہ
کبھی گلستاں کا جانچا، کبھی کہکشاں کو پرکھا
مِرے ذوقِ جستجو کو نہ ملا کوئی ٹھکانہ
یہ چمن بھی کیا چمن ہے، نہیں ہمصفیر کوئی
میں سناؤں بھی تو کس کو یہ نوائے عاشقانہ
تجھے کیا بتاؤں ہمدم کہ قفس میں کیا کشش تھی
یہ بجا مِری نظر سے نہ پرے تھا آشیانہ
یہ بجھی بجھی فضائیں، یہ گھٹا گھٹا سا عالم
مِرے نطق! چھیڑ کوئی طرب آفریں ترانہ
نہ الم ہے دوش کا کچھ، نہ کچھ اشتیاقِ فردا
یہ جو آج سامنے ہے، یہی ہے مِرا زمانہ

جگن ناتھ آزاد

No comments:

Post a Comment