جتنے وحشی ہیں چلے جاتے ہیں صحرا کی طرف
کوئی جاتا ہی نہیں خیمۂ لیلیٰ کی طرف
ہم حریفوں کی تمنا میں مرے جاتے ہیں
انگلیاں اٹھنے لگیں دیدۂ بِینا کی طرف
ہر طرف صبح نے اک جال بچھا رکھا ہے
اوس کی بوند کہاں جاتی ہے دریا کی طرف
ہم بھی امرت کے طلبگار رہے ہیں، لیکن
ہاتھ بڑھ جاتے ہیں خود زہرِ تمنا کی طرف
راہی معصوم رضا
کوئی جاتا ہی نہیں خیمۂ لیلیٰ کی طرف
ہم حریفوں کی تمنا میں مرے جاتے ہیں
انگلیاں اٹھنے لگیں دیدۂ بِینا کی طرف
ہر طرف صبح نے اک جال بچھا رکھا ہے
اوس کی بوند کہاں جاتی ہے دریا کی طرف
ہم بھی امرت کے طلبگار رہے ہیں، لیکن
ہاتھ بڑھ جاتے ہیں خود زہرِ تمنا کی طرف
راہی معصوم رضا
No comments:
Post a Comment