Monday 2 May 2016

حدِ نگاہ تلک کیا دکھائی دیتا ہے

حدِ نگاہ تلک کیا دکھائی دیتا ہے
بس ایک پیاس کا صحرا دکھائی دیتا ہے
 پیا تھا اس نے کبھی زہرِ آگہی شاید
یہ آسمان جو نیلا دکھائی دیتا ہے
ہوائیں ننگی چٹانوں پہ رقص کرتی ہیں
وہ کس طرح کا جزیرہ دکھائی دیتا ہے
چلو غزل کا کوئی شعر گنگناتے ہوئے
وہ چاند میں کوئی چہرہ دکھائی دیتا ہے
بنے گی پھر کوئی دنیا کہ آدمی راہیؔ
خدا کی طرح اکیلا دکھائی دیتا ہے

راہی معصوم رضا

No comments:

Post a Comment