Monday 2 May 2016

دوستو جان پہ بن آئی ہے

دوستو! جان پہ بن آئی ہے
یہ بڑے شہر کی تنہائی ہے
سر ہتھیلی پر اگا ہی لے گا
جس نے جینے کی قسم کھائی ہے
مارنا بھی نہیں آتا جن کو
ان کو بھی شوقِ مسیحائی ہے
سچ اگر بولوں تو کٹتی ہے زباں
اور چپ رہنے میں رسوائی ہے
اب کی برسات میں برسے گی خزاں
کس قیامت کی گھٹا چھائی ہے

راہی معصوم رضا

No comments:

Post a Comment