Sunday, 1 May 2016

کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا

کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا
میں شاخِ عصر پہ بیٹھا ہوا پرندہ تھا
بدن میں دل تھا معلق، خلا میں نظریں تھیں
مگر کہیں کہیں سینے میں درد زندہ تھا
پھر ایک رات مجھی پر جھپٹ پڑا مِرا ضبط
جسے میں پال رہا تھا، کوئی درندہ تھا
خوشی نے ہاتھ بڑھایا تھا میری جانب بھی
مگر وہاں جہاں ہر شخص غم کنندہ تھا
نبردِ عشق میں کیا کیا جگر کیا توقیرؔ
ہوا کا لمس بھی جب انتقامِ ہندہ تھا

توقیر تقی

No comments:

Post a Comment