کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا
میں شاخِ عصر پہ بیٹھا ہوا پرندہ تھا
بدن میں دل تھا معلق، خلا میں نظریں تھیں
مگر کہیں کہیں سینے میں درد زندہ تھا
پھر ایک رات مجھی پر جھپٹ پڑا مِرا ضبط
خوشی نے ہاتھ بڑھایا تھا میری جانب بھی
مگر وہاں جہاں ہر شخص غم کنندہ تھا
نبردِ عشق میں کیا کیا جگر کیا توقیرؔ
ہوا کا لمس بھی جب انتقامِ ہندہ تھا
توقیر تقی
No comments:
Post a Comment