Sunday 1 May 2016

اسباب نہ لشکر نہ سپر کوئی نہیں تھا

اسباب نہ لشکر، نہ سِپر، کوئی نہیں تھا
سالار کو ایسے میں بھی ڈر کوئی نہیں تھا
میں لوٹ کے آیا تو زمانہ تھا کوئی اور
بستی تو سلامت تھی، مگر کوئی نہیں تھا
اس وقت کی باتیں بھی مجھے اس نے بتائیں
جب میرے لیے بابِ خبر کوئی نہیں تھا
تصویر کِیا میں نے شبِ خواب کو یوں بھی
ہاتھوں میں لکیریں تھیں ہنر کوئی نہیں تھا
ہم دونوں بچھڑنے کی دعا مانگ رہے تھے
دونوں کی دعاؤں میں اثر کوئی نہیں تھا

توقیر تقی

No comments:

Post a Comment