اسباب نہ لشکر، نہ سِپر، کوئی نہیں تھا
سالار کو ایسے میں بھی ڈر کوئی نہیں تھا
میں لوٹ کے آیا تو زمانہ تھا کوئی اور
بستی تو سلامت تھی، مگر کوئی نہیں تھا
اس وقت کی باتیں بھی مجھے اس نے بتائیں
تصویر کِیا میں نے شبِ خواب کو یوں بھی
ہاتھوں میں لکیریں تھیں ہنر کوئی نہیں تھا
ہم دونوں بچھڑنے کی دعا مانگ رہے تھے
دونوں کی دعاؤں میں اثر کوئی نہیں تھا
توقیر تقی
No comments:
Post a Comment