Sunday, 1 May 2016

غم کدے وہ جو ترے گام سے جل اٹھتے ہیں

غم کدے وہ جو تِرے گام سے جل اٹھتے ہیں
بت کدے وہ جو مِرے نام سے جل اٹھتے ہیں
رات تاریک سہی،۔ میری طرف تو دیکھو
کتنے مہتاب ابھی جام سے جل اٹھتے ہیں
رات کے درد کو کچھ اور بڑھانے کے لیے
ہم سے کچھ سوختہ جاں شام سے جل اٹھتے ہیں
وہ چمن بھی نہ ہو وجہِ نشاطِ غمِ دل
جو چمن عارضِ گلفام سے جل اٹھتے ہیں
میں اگر دوست نہیں، سب کا تو دشمن بھی نہیں
پھر بھی کیوں لوگ مِرے نام سے جل اٹھتے ہیں
ذہنِ شاعر میں وہ انوارِ سحر کا عالم
شعر جب شبنمِ الہام سے جل اٹھتے ہیں

سلیمان اریب

No comments:

Post a Comment