غم کدے وہ جو تِرے گام سے جل اٹھتے ہیں
بت کدے وہ جو مِرے نام سے جل اٹھتے ہیں
رات تاریک سہی،۔ میری طرف تو دیکھو
کتنے مہتاب ابھی جام سے جل اٹھتے ہیں
رات کے درد کو کچھ اور بڑھانے کے لیے
وہ چمن بھی نہ ہو وجہِ نشاطِ غمِ دل
جو چمن عارضِ گلفام سے جل اٹھتے ہیں
میں اگر دوست نہیں، سب کا تو دشمن بھی نہیں
پھر بھی کیوں لوگ مِرے نام سے جل اٹھتے ہیں
ذہنِ شاعر میں وہ انوارِ سحر کا عالم
شعر جب شبنمِ الہام سے جل اٹھتے ہیں
سلیمان اریب
No comments:
Post a Comment