Sunday, 1 May 2016

ستارے ڈوب چکے ماہتاب باقی ہے

ستارے ڈوب چکے، ماہتاب باقی ہے 
مِر ے گلاس میں تھوڑی شراب باقی ہے
گلوں میں رنگ، بہاروں میں دلکشی ہے ابھی
تِرا جمال سلامت،۔۔ شباب باقی ہے
میں تیری زلف کی آیت سے جب گزرنے لگا
'کہا یہ رخ نے کہ 'پوری کتاب باقی ہے
تِرے ستم سے تو عہدہ برآ ہوئے نہ ابھی
ابھی تِرا کرمِ بے حساب،۔ باقی ہے
میں جی رہا تھا کہ اک انقلاب آ پہنچا
میں جی رہا ہوں کہ اک انقلاب باقی ہے
میں کھو گیا بھی تو کیا تیرگئ شب میں اریبؔ
مِرا حسین،۔۔ مِرا آفتاب باقی ہے

سلیمان اریب

No comments:

Post a Comment