پوچھ مت دیکھ کہ کیا حال اریب آج بھی ہے
اپنے ہی شہر میں بے چارہ غریب آج بھی ہے
تھی تو مرہم کی ضرورت پہ تِری یاد کے ساتھ
ایک نشتر سا مِرے دل کے قریب آج بھی ہے
دوست پھر دوست ہے اب اس سے شکایت کیا ہو
لاکھ یورش ہو خزاں کی مجھے اس کا ہے پتہ
ہر گلِ تازہ بہاروں کا نقیب آج بھی ہے
شکل واعظ کی بنا کر ہی نہ کیوں آئے مگر
رِندِ بدنام،۔ سلیمان اریبؔ آج بھی ہے
سلیمان اریب
No comments:
Post a Comment