Sunday 1 May 2016

پوچھ مت دیکھ کہ کیا حال اریب آج بھی ہے

پوچھ مت دیکھ کہ کیا حال اریب آج بھی ہے
اپنے ہی شہر میں بے چارہ غریب آج بھی ہے
تھی تو مرہم کی ضرورت پہ تِری یاد کے ساتھ
ایک نشتر سا مِرے دل کے قریب آج بھی ہے
دوست پھر دوست ہے اب اس سے شکایت کیا ہو
خود مِرا بختِ سیہ،۔ میرا رقیب آج بھی ہے
لاکھ یورش ہو خزاں کی مجھے اس کا ہے پتہ
ہر گلِ تازہ بہاروں کا نقیب آج بھی ہے
شکل واعظ کی بنا کر ہی نہ کیوں آئے مگر
رِندِ بدنام،۔ سلیمان اریبؔ آج بھی ہے

سلیمان اریب

No comments:

Post a Comment