اک ایک کرن معدوم ہوئی سب آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے
حالات بدلنے لگتے ہی،۔ سب یار ہمارے ٹوٹ گئے
پھر ضبط کا دامن چھوٹ گیا، پھر دل پہ رہا کب اپنا بس
موجوں میں جو شدت آئی تھی، دریا کے کنارے ٹوٹ گئے
کچھ شیش محل سے منظر جو پلکوں پہ سجائے رکھے تھے
جو اندھے سانپ کو چڑیا سے پیڑوں میں غذا پہنچاتا ہے
وہ ایک سہارا کام آیا، جب سارے سہارے ٹوٹ گئے
مہتاب قدر
No comments:
Post a Comment