Sunday, 1 May 2016

اک ایک کرن معدوم ہوئی سب آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے

اک ایک کرن معدوم ہوئی سب آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے
حالات بدلنے لگتے ہی،۔ سب یار ہمارے ٹوٹ گئے 
پھر ضبط کا دامن چھوٹ گیا، پھر دل پہ رہا کب اپنا بس 
موجوں میں جو شدت آئی تھی، دریا کے کنارے ٹوٹ گئے
کچھ شیش محل سے منظر جو پلکوں پہ سجائے رکھے تھے 
پتھراؤ کا موسم کیا آیا، وہ سارے نظارے ٹوٹ گئے 
جو اندھے سانپ کو چڑیا سے پیڑوں میں غذا پہنچاتا ہے
وہ ایک سہارا کام آیا، جب سارے سہارے ٹوٹ گئے

مہتاب قدر

No comments:

Post a Comment