فردوس کی طہور بھی آخر شراب ہے
مجھ کو نہ چلو، میری نیت خراب ہے
ذرے کا حسن ذرہ نہیں،۔ آفتاب ہے
مشکل یہ آ پڑی ہے کہ زیرِ نقاب ہے
ہے اک یہی جھلک تو مِری جانِ جستجو
او مبتلائے زیست! ٹھہر، خودکشی نہ کر
تیرا علاج زہر نہیں ہے، شراب ہے
ساقی تیری نظر نے یہ کیا کر دیا ہے
جیسے رگوں میں خون نہیں ہے شراب ہے
نشہ شراب میں ہے نہ مستی شراب میں
اس رنگ سے بہشت میں رہنا عذاب ہے
ہے اک یہی جھلک تو مِری جانِ جستجو
کیوں مان لوں کہ آب نہیں ہے شراب ہے
توبہ کئے ہوئے بھی زمانہ گزر گیا
اب تک رگوں میں خون نہیں ہے شراب ہے
ہے دستِ محتسب مِرا جاں بخش ہجر میں
میں زہر پی رہا تھا، وہ سمجھا شراب ہے
عرضِ سخن کا اب وہ زمانہ کہاں حفیظؔ
کہنے کا وقت ہے، نہ سنانے کی تاب ہے
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment