Monday 2 May 2016

اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​

اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں ​
قائم کِیا ہے میں نے عدم کے وجود کو ​
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں ​
ہنسنے کا اعتبار، نہ رونے کا اعتبار​
کیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں ​
ہمت بلند تھی مگر، افتاد دیکھنا
چپ چاپ آج محوِ دعا ہو گیا ہوں میں​
نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست ​
کمبخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں​
یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں​
شاید اسیرِ دامِ بلا ہو گیا ہوں میں ​
اٹھا ہوں اک جہانِ خموشی لیے ہوئے
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں ​
ہاں کیفِ بیخودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے
محسوس کر رہا تھا، خدا ہو گیا ہوں میں 
حفیظ جالندھری

2 comments:

  1. ایک شعر کی تصحیح کر لیجیے
    قائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو..
    دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں..

    ReplyDelete