اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں
قائم کِیا ہے میں نے عدم کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں
ہنسنے کا اعتبار، نہ رونے کا اعتبار
ہمت بلند تھی مگر، افتاد دیکھنا
چپ چاپ آج محوِ دعا ہو گیا ہوں میں
نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست
کمبخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں
یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دامِ بلا ہو گیا ہوں میں
اٹھا ہوں اک جہانِ خموشی لیے ہوئے
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں
ہاں کیفِ بیخودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے
محسوس کر رہا تھا، خدا ہو گیا ہوں میں
حفیظ جالندھری
ایک شعر کی تصحیح کر لیجیے
ReplyDeleteقائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو..
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں..
جی تصحیح کر دی گئی ہے
Delete