Thursday 5 May 2016

رت جگا ہو کہ گھنی نیند بدلتا ہی نہیں

رت جگا ہو کہ گھنی نیند، بدلتا ہی نہیں
ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں
ایک آنسو ہے کہ آنکھوں سے چھلکنا چاہے
ایک پتھر ہے کہ سینے میں پگھلتا ہی نہیں
ایک سورج ہے کہ ٹھہرا ہے سوا نیزے پر
ایک سایہ ہے کہ سر سے مِرے ٹلتا ہی نہیں
منتظر کب سے ہوں ساحل پہ چٹانوں کی طرح
وہ سمندر کہ کناروں سے اچھلتا ہی نہیں
اب کوئی خواب دریچہ نہیں کھُلتا ناصرؔ
اب کوئی دِیپ سیہ رات میں جلتا ہی نہیں

نصیر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment