گھر تھا خالی، کھلا تھا دروازہ
ہجرتوں کی صدا تھا دروازہ
مدتوں بعد جب مِلے دونوں
چپ تھا میں، بولتا تھا دروازہ
دستکیں دے رہی تھی تنہائی
منجمد رات کی فصیلوں پر
چاندنی سے لکھا تھا دروازہ
یا کسی بھوت کی شرارت تھی
یا ہوا سے کھلا تھا دروازہ
گھر سے نکلے تو دُور تک ناصرؔ
ساتھ چلتا رہا تھا دروازہ
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment