شبِ وصال میں دل پر قلق ابھی سے ہے
سحر ہے دور میرا رنگ فق ابھی سے ہے
ہنوز دفن ہوا ہی نہیں تِرا بسمل
کہ زلزلے میں زمیں کا طبق ابھی سے ہے
میں لکھ چکا ہی نہیں حالِ دل کہ اسکی طرف
چلا نہیں وہ ارادہ ہی سیرِ ماہ کا ہے
پہ نازکی سے جبیں پر عرق ابھی سے ہے
کسی نے شام کے آنے کا کیا کہا عشرتؔ
کہ منہ پہ آپ کے پھولی شفق ابھی سے ہے
عشرت بریلوی
No comments:
Post a Comment