چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہو گا
یہ تماشا بھی کسی دن ہمیں کرنا ہو گا
ریت کا ڈھیر تھے ہم، سوچ لیا تھا ہم نے
جب ہوا تیز چلے گی، تو بکھرنا ہو گا
ہر نئے موڑ پہ یہ سوچ قدم روکے گی
لے کے اس پار نہ جائے گی جدا راہ کوئی
بھیڑ کے ساتھ ہی دلدل میں اترنا ہو گا
زندگی خود ہی اک آزار ہے جسم و جاں کا
جینے والوں کو اسی روگ میں مرنا ہوگا
قاتلِ شہر کے مخبر در و دیوار بھی ہیں
اب ستمگر اسے کہتے ہوئے ڈرنا ہو گا
آئے ہو اسکی عدالت میں تو مخمورؔ تمہیں
اب کسی جرم کا اقرار تو کرنا ہو گا
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment