Monday 2 May 2016

خاطرِ مجروح لیتا ہے مزا تاثیر کا

خاطرِ مجروح لیتا ہے مزا تاثیر کا 
زخم بھرتا ہی نہیں انکی نظر کے تیر کا 
آب و تابِ آئینہ کم ہو گئی تو کیا ہوا 
رفتہ رفتہ رنگ اڑ جاتا ہے ہر تصویر کا
بیخودی میں بھی کیا ضبطِ خودی کا اہتمام 
یوں تو اکساتا رہا جذبہ مجھے تقصیر کا 
کیا بساطِ بے قراری، اور کیا ہستئ دل 
تیری نظروں نے بھرم کھولا مِری توقیر کا 
کہنے کو تو خم بہ خم حلقہ بہ حلقہ تھی مگر 
زلفِ پیچاں نے مجھے دھوکا دیا زنجیر کا 
جسکی تابانی سے روشن ہو گئے کون و مکاں 
آج میرا دل بھی ہے مرکز اسی تنویر کا 
روزوشب جلتا ہے وہ تو آپ اپنی آگ میں
حالِ نو کیا پوچھتے ہو میکشِؔ دل گیر کا

میکش ناگپوری

No comments:

Post a Comment