Tuesday, 6 September 2016

ہمدم نہ ڈر کہاں کا زمانہ کہاں کے لوگ

ہمدم! نہ ڈر، کہاں کا زمانہ، کہاں کے لوگ
حائل نہ کب دلوں میں ہوئے درمیاں کے لوگ
ہے تیری آنکھ سے بھی زیادہ کہیں نشہ
پھر کیوں نیاز مند ہیں پیرِ مغاں کے لوگ
رخسار و لب کا عالم گل آفریں نہ پوچھ
قائل نہیں رہے سحرِ گلستاں کے لوگ
کچھ یوں اجڑ گئیں ہیں نگاہوں کی بستیاں
جیسے تِرے ہی ساتھ تھے سارے جہاں
ویران ہو گئی حرم و دَیر کی فضا
آ بیٹھے تیری بزم میں ہر آستاں کے لوگ
آخر خلوص کی بھی کوئی حد ضرور ہے
منزل پہ کب رہے ہیں بہم کارواں کے لوگ
بیٹھا ہوں اک طرف کسی فنکار کی طرح
کردار بن گئے ہیں میری داستاں کے لوگ

شوکت واسطی

No comments:

Post a Comment