Thursday, 8 September 2016

ہمیں خود سے بھی ملنا تھا کسی ہمراز سے پہلے

ہمیں خود سے بھی ملنا تھا کسی ہمراز سے پہلے
کوئی آواز سننا تھی، کسی آواز سے پہلے
کھنڈر جو ہو گئیں یہ بستیاں، آباد تھیں پہلے
گھروندے تھے یہاں اس فرشِ پا انداز سے پہلے
یہ جو بے ساختہ پن ہے یہی تو اصل راحت ہے
پروں کو دیکھنا واجب نہیں پرواز سے پہلے
گزرتے وقت کے اب تک وہی لمحات ساکن ہیں
وہیں ہم ہیں جہاں ہم تھے سکوتِ ساز سے پہلے
وہ جو ایک معجزہ شہرِ تمنا! تُو نے دیکھا تھا
سو اب بیتیں گے کتنے جگ اسی اعجاز سے پہلے
ابھی تو خواب چہرے سب دعا کی رہگزر میں تھے
کہانی ختم کیسے ہو گئی،۔۔۔۔ آغاز سے پہلے

ادا جعفری

No comments:

Post a Comment