Thursday, 13 October 2016

بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا

بے نام سا یہ درد، ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بِیت گیا ہے، وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہے، کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے، میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے، وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشا
جاتے ہیں جدھر سب، میں ادھر کیوں نہیں جاتا
وہ خواب جو عرصے سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا
وہ نام جو برسوں سے سمایا ہے ذہن میں 
وہ خواب اگر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتا
وہ نام جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب اگر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتا

ندا فاضلی

مقطع یا آخری شعر تین مختلف صورتوں میں دیکھا، تینوں کو شیئر کر دیا ہے۔

No comments:

Post a Comment