نہیں کہ آگ تِری انگلیوں کے مَس میں نہیں
لہو کا ولولہ شاید مِری ہوس میں نہیں
کروں زبانِ غزل میں اسے ادا کیوں کر
وہ راز جو کہ اشاروں کی دسترس میں نہیں
یہ فصلِ گُل ہے،۔ مگر اے ہوائے آوارہ
برائے سیر،۔ خزاں کو کہاں پسند آئے
وہ راستہ کہ گزرگاہِ خار و خس میں نہیں
سِمٹ گیا مِرے اندر کا ریگزار کہ اب
جو تھی کبھی وہ کسک نغمۂ جرس میں نہیں
آفتاب اقبال شمیم
No comments:
Post a Comment