جگر کو داغ کی مانند لالہ کیا کرتا
لبالب اپنے لہو کا پیالہ کیا کرتا
دیا نوشتہ نہ اس بت کو دل کے سودے میں
خدا کے گھر بھلا میں قبالہ کیا کرتا
بجا کیا اسے توڑا جو سر سے دریا کے
نہ کرتی اگر عقل ہفت آسماں کی سیر
کوئی یہ سات ورق کا رسالہ کیا کرتا
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
مۓ دو ہفتہ بھی ہوتا تو لطف تھا آتشؔ
اکیلے پی کے شراب دو سالہ کیا کرتا
خواجہ حیدر علی آتش
No comments:
Post a Comment