Friday, 2 October 2020

کبھی آنکھ سے جو گرا نہیں میں وه اشک ہوں میرے دوستو

 کبھی آنکھ سے جو گرا نہیں میں وه اشک ہوں، میرے دوستو

میرا ضبط ہے میری زندگی، سو کیا کہوں، میرے دوستو

میں تو ایک حرفِ سوال ہوں، میں تو ایک موجِ خیال ہوں

وه سنے تو عرضِ وفا کروں، کہے تو بہوں میرے دوستو

تمہیں میری رونقِ شہر تهے میری جاں تهے معنی دہر تهے

میرا آس پاس اجڑ گیا، میں کہاں رہوں، میرے دوستو

وه جو پهول ہیں، جو چراغ ہیں، مرے نام کے وه تمہیں ملیں

یہ جو زخم ہیں جو داغ ہیں انہیں میں سہوں میرے دوستو

کہیں جیت کر تمہیں کهو نہ دوں شکست اپنی ہی مان لوں

مرے ظرف کا ہے یہ فیصلہ کہ میں چپ رہوں، میرے دوستو


امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment