Thursday, 1 October 2020

یہ داستان غم دل کہاں کہی جائے

 یہ داستان غم دل کہاں کہی جائے

یہاں تو کھل کے کوئی بات بھی نہ کی جائے

تمہارے ہاتھ سہی فیصلہ مگر پھر بھی

ذرا اسیر کی روداد تو سنی جائے

یہ رات دن کا تڑپنا بھی کیا قیامت ہے

جو تم نہیں تو تمہارا خیال بھی جائے

اب اس سے بڑھ کے بھلا اور کیا ستم ہو گا

زبان کھل نہ سکے آنکھ دیکھتی جائے

یہ چاک چاک گریباں نہیں ہے دیوانے

جسے بس ایک چھلکتی نظر ہی سی جائے

کوئی سبیل کہ یہ سحر جاں گسل ٹوٹے

کوئی علاج کہ یہ دور بے بسی جائے


احمد راہی

No comments:

Post a Comment