یہ داستان دل ہے، کیا ہو ادا زباں سے
آنسو ٹپک رہے ہیں لفظ ملیں کہاں سے
ہے ربط دو دلوں کو بے ربط بیاں سے
کچھ وہ کہیں نظر سے کچھ ہم کہیں زباں سے
یہ روتے روتے ہنسنا ترتیب ذکر غم ہے
آیا ہوں ابتدا پر چھیڑا تھا درمیاں سے
حاصل تو زندگی کا تھی زندگی یہیں کی
اب میں ہوں اک جنازہ اٹھوا دو آستاں سے
اس طور خامشی کا زور بیاں بھی دیکھا
تھی بات میرے دل کی نکلی تیری زباں سے
جب حسن خود نما ہے اور عشق رخنہ افگن
اس کشمکش میں پردہ نکلے گا درمیاں سے
میدان امتحان میں اے بے غرض محبت
دل کی زمین تو نے ٹکرا دی آسماں سے
اس راز دار غم کی حالت نہ پوچھ جس کو
کہنا تو ہے بہت کچھ محروم ہے زباں سے
اے جذب شوق منزل ممنون غیر کیوں ہوں
خود راستہ بدل کر بچھڑا ہوں کارواں سے
ہر گام پر ٹھٹھکنا،۔ ہر بار مڑ کے تکنا
او مسکرانے والے کیا لے چلا یہاں سے
ظاہر فریب وعدہ پھر اعتبار اتنا
وہ لکھ گیا دلوں پر جو کہہ دیا زباں سے
آنکھوں سے باغباں کی شعلے نکلے رہے ہیں
تنکے دبائے منہ میں نکلا ہوں آشیاں سے
دل کا سکوں گنوا کر ہوں آرزو پشیماں
کیوں لے کے رکھ نہ چھوڑا جنس رائیگاں سے
آرزو لکھنوی
No comments:
Post a Comment