تجھ کو پانے کی تمنا تجھے کھونا تو نہیں
موسمِ ہجر ہے یہ کوئی کرونا تو نہیں
میں بدلتے ہوئے حالات کا آئینہ ہوں
ہنسنے والے تُو مجھے دیکھ کے رونا تو نہیں
دیکھنا چاہتا ہوں میں تِرے جلووں کی نمود
جاگنا چاہتا ہوں میں ابھی سونا تو نہیں
کس لیے جمع کیے جاتا ہے دنیا دل میں
یہ تِرا بوجھ کسی اور نے ڈھونا تو نہیں
میرے ہونے سے اگر فرق نہیں پڑتا کوئی
پھر جو ہونا ہے مِرا یہ کوئی ہونا تو نہیں
آج اس نے عجب انداز سے پوچھا ہے سلیم
دل ہی ٹوٹا ہے نا اس بار کھلونا تو نہیں
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment