Monday, 16 November 2020

مری ہر ادا ہوئی بے اثر جو نظر کا جام پلا دیا

👁مری ہر ادا ہوئی بے اثر جو نظر کا جام پلا دیا👁

گلے ڈھول ڈال کے عشق کا مجھے بے خودی میں نچا دیا

تری بے رخی جو قبول کی تجھے یوں تو دل سے بھلا دیا

شبِ ہجر میں تری فکر میں مگر اپنا آپ گنوا دیا

مرا ہاتھ، ہاتھ سے چھوڑ کر مرے خونِ دل کو نچوڑ کر

یوں مرے وجود کو توڑ کر مری خاک تک کو اڑا دیا

میں بھٹک بھٹک کے جو تھک گئی کسی ریگزارِ فریب میں

غمِ نارسائی کے کرب نے مجھے خود سے آج ملا دیا

مری کم نصیبی کے سائے بھی تری زندگی پہ نہ پڑ سکیں

میں نے خود ہی اپنے وجود کو ترے راستے سے ہٹا دیا

وہ محبتوں کے جو فرض تھے نہ قضا ہوئے نہ ادا ہوئے

یہی اب تقاضائے وقت ہے میں نے ترک عہدِ وفا کیا

مرے کج ادا مرے بے وفا تری چاہتوں کے فریب نے

وہ سبق سکھائے کہ زندگی کی حقیقتوں کا پتا دیا


شیریں سید

No comments:

Post a Comment