زمانہ اس گھڑی نظروں پہ آشکار ہوا
جو کھیل گھر کا تھا پبلک میں اشتہار ہوا
چلی تھی اسکی نمائش بھی دھوم دھام کے ساتھ
جو تیرے ہاتھ کا مقبول شاہکار ہوا
میں گفتگو کے مراحل سے تو نکل آئی
الجھ کے دل تری باتوں میں تار تار ہوا
وہی تباہی کی جانب تھا میرا پہلا قدم
اشارہ وقت کا جو مجھ کو بار بار ہوا
چکانی پڑ گئی قیمت وہا ں پہ سانسوں کی
ہمیں بھی ٹوٹ کے جب زندگی سے پیار ہوا
قلم کو نقش نگاری سے عشق ہونے لگا
روانہ ہونے کو جب موسم بہار ہوا
ترے حوالے میں خوشیاں تمام کر دوں گی
گزرتے وقت پہ میرا جو اختیار ہوا
اسی گھڑی تو میں شک پالنے لگی دل میں
مکمل اس پہ مرا جب سے اعتبار ہوا
شمار کرنا تھا کچھ مسکراتی گھڑیوں کو
بکھر کے درد جہاں آج بے شمار ہوا
پڑا ہوا ہے وہ محفوظ کیمرے میں کہیں
تمہارا ہم سے تعارف جو پہلی بار ہوا
نئے مکان کی کھڑکی کھلی رکھی ہوئی ہے
بہت پرانا مگر تیرا انتظار ہوا
تماشہ آج ترے ہاتھوں بن گئے ہم بھی
کہ پتلیوں میں ہمارا بھی اب شمار ہوا
ہر ایک ٹھہری ہوئی چیز رقص کرنے لگی
ہمارے سر پہ جنوں اس قدر سوار ہوا
قیامت ایک کسی گھر پہ یاسمیں ٹوٹی
تمام شہر کا ماحول سوگوار ہوا
یاسمین سحر
No comments:
Post a Comment