Tuesday, 22 December 2020

زمانہ اس گھڑی نظروں پہ آشکار ہوا

 زمانہ اس گھڑی نظروں پہ آشکار ہوا

جو کھیل گھر کا تھا پبلک میں اشتہار ہوا

چلی تھی اسکی نمائش بھی دھوم دھام کے ساتھ

جو تیرے ہاتھ کا مقبول شاہکار ہوا

میں گفتگو کے مراحل سے تو نکل آئی

الجھ کے دل تری باتوں میں تار تار ہوا

وہی تباہی کی جانب تھا میرا پہلا قدم

اشارہ وقت کا جو مجھ کو بار بار ہوا

چکانی پڑ گئی قیمت وہا ں پہ سانسوں کی

ہمیں بھی ٹوٹ کے جب زندگی سے پیار ہوا

قلم کو نقش نگاری سے عشق ہونے لگا

روانہ ہونے کو جب موسم بہار ہوا

ترے حوالے میں خوشیاں تمام کر دوں گی

گزرتے وقت پہ میرا جو اختیار ہوا

اسی گھڑی تو میں شک پالنے لگی دل میں

مکمل اس پہ مرا جب سے اعتبار ہوا

شمار کرنا تھا کچھ مسکراتی گھڑیوں کو

بکھر کے درد جہاں آج بے شمار ہوا

پڑا ہوا ہے وہ محفوظ کیمرے میں کہیں

تمہارا ہم سے تعارف جو پہلی بار ہوا

نئے مکان کی کھڑکی کھلی رکھی ہوئی ہے

بہت پرانا مگر تیرا انتظار ہوا

تماشہ آج ترے ہاتھوں بن گئے ہم بھی

کہ پتلیوں میں ہمارا بھی اب شمار ہوا

ہر ایک ٹھہری ہوئی چیز رقص کرنے لگی

ہمارے سر پہ جنوں اس قدر سوار ہوا

قیامت ایک کسی گھر پہ یاسمیں ٹوٹی

تمام شہر کا ماحول سوگوار ہوا


یاسمین سحر

No comments:

Post a Comment