دیوار نے جو آپ کو رستہ نہیں دیا
کیا آپ نے ہمارا حوالہ نہیں دیا؟
یہ ہجر میں نے اپنے ہی ہاتھوں کمایا ہے
میں نے تمہارے وصل کا صدقہ نہیں دیا
یادوں کی دھوپ زندگی کی شام تک رہی
اس ہجر نامی پیڑ نے سایہ نہیں دیا
ہم نے حقوقِ زن کی تو باتیں ہزار کیں
بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا
پنکھے سے لٹکی لاش یہی چیختی رہی
شوہر نے بس طلاق دی، بچہ نہیں دیا
چڑیا پروں بغیر بنانی پڑی فہد
کوزہ گروں نے تھوڑا سا گارا نہیں دیا
سردار فہد
No comments:
Post a Comment