Thursday, 21 January 2021

مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے

کورونا کے موضوع پر ایک غزل


 مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے

اب خبر آئی ابھی تو ابتدا ہونے کو ہے

اک طبیبِ بے ہنر ہے اور اک مُوذی مرض

قریۂ بیمار جانے کیا سے کیا ہونے کو ہے

ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں، ٹوٹتی جاتی ہے سانس

اس کا کہنا ہے؛ نہ گھبراؤ شفا ہونے کو ہے

فاصلوں اور قیدِ تنہائی تلک تو آ گئے

جانے کیا کچھ اور بھی نذرِِ وبا ہونے کو ہے

ایک سناٹا مسلسل ڈس رہا ہے شہر کو

ایسے لگتا ہے کوئی حادثہ ہونے کو ہے


عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment