کورونا کے موضوع پر ایک غزل
مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے
اب خبر آئی ابھی تو ابتدا ہونے کو ہے
اک طبیبِ بے ہنر ہے اور اک مُوذی مرض
قریۂ بیمار جانے کیا سے کیا ہونے کو ہے
ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں، ٹوٹتی جاتی ہے سانس
اس کا کہنا ہے؛ نہ گھبراؤ شفا ہونے کو ہے
فاصلوں اور قیدِ تنہائی تلک تو آ گئے
جانے کیا کچھ اور بھی نذرِِ وبا ہونے کو ہے
ایک سناٹا مسلسل ڈس رہا ہے شہر کو
ایسے لگتا ہے کوئی حادثہ ہونے کو ہے
عرفان صدیقی
No comments:
Post a Comment