لب تک آیا گِلہ ہمیشہ سے
اور میں چپ رہا ہمیشہ سے
سب ہواؤں سے جنگ کرتا رہا
ایک ننھا دِیا🪔 ہمیشہ سے
سوچ پر لگ سکی نہ پابندی
یوں ہی آئی ہوا ہمیشہ سے
کتنی شکلیں بدل کے آتا ہے
اک وہی واقعہ ہمیشہ سے
بات آسودگی کی ہوتی ہے
کون کس کو ملا ہمیشہ سے
یاد کرتا رہا کسی کو کوئی
پھول دل میں کھلا ہمیشہ سے
اس نگہ کے سبب سے پایا ہے
سب نے اپنا پتا ہمیشہ سے
عدل فریاد سے ملا نہ کبھی
وقت چیخا کِیا ہمیشہ سے
وہ جو دریا کے بیچ رہتا ہے
وہی پیاسا ملا ہمیشہ سے
سب پرندے فضا میں اڑتے ہیں
جال بچھتا رہا ہمیشہ سے
کارواں راستے میں چلتے رہے
راستہ چپ رہا ہمیشہ سے
قیمتی تھا ہوائے غم کے لیے
ایک دل کا دیا ہمیشہ سے
چھوٹی چھوٹی سی خواہشوں کے لیے
کوئی زندہ رہا ہمیشہ سے
دل ہے کیا چیز حل ہوا نہ کبھی
میرا یہ مسئلہ ہمیشہ سے
ہر مسافر کے ساتھ آتا ہے
اک نیا راستہ ہمیشہ سے
ہوئی دراصل مات کس کو یہاں
جیت میں کون تھا ہمیشہ سے
آج تک یہ نہیں کھُلا عادل
کیا ہوا فیصلہ ہمیشہ سے
تاجدار عادل
No comments:
Post a Comment