اتنی تو بہار اک دن، ویرانے تک آ جائے
نکہت ہی گلستاں کی دیوانے تک آ جائے
اے بادہ کشی! اتنا اعجاز تو پیدا کر
خود عکسِ رُخِ رنگیں پیمانے تک آ جائے
رہ رہ کے جلاتا ہوں میں دل کے چراغوں کو
معلوم نہیں کب وہ غم خانے تک آ جائے
وہ راز جو سینے میں پوشیدہ رہا برسوں
نوبت نہ کہیں اس کی، افسانے تک آ جائے
اچھا ہے، محبت میں یہ ربط نہ پیدا ہو
کیوں ذکر تِرا، میرے افسانے تک آ جائے
جِس نے تِری محفل کی دیکھی ہے بہار اکثر
وہ، رات کبھی میرے کاشانے تک آ جائے
اس آس پہ آیا ہے صحرا کی طرف ثاقب
شاید کہ ہوائے گُل ویرانے تک آ جائے
ثاقب کانپوری
No comments:
Post a Comment