Monday 18 January 2021

اتنی تو بہار اک دن ویرانے تک آ جائے

 اتنی تو بہار اک دن، ویرانے تک آ جائے

نکہت ہی گلستاں کی دیوانے تک آ جائے

اے بادہ کشی! اتنا اعجاز تو پیدا کر

خود عکسِ رُخِ رنگیں پیمانے تک آ جائے

رہ رہ کے جلاتا ہوں میں دل کے چراغوں کو

معلوم نہیں کب وہ غم خانے تک آ جائے

وہ راز جو سینے میں پوشیدہ رہا برسوں

نوبت نہ کہیں اس کی، افسانے تک آ جائے

اچھا ہے، محبت میں یہ ربط نہ پیدا ہو

کیوں ذکر تِرا، میرے افسانے تک آ جائے

جِس نے تِری محفل کی دیکھی ہے بہار اکثر

وہ، رات کبھی میرے کاشانے تک آ جائے

اس آس پہ آیا ہے صحرا کی طرف ثاقب

شاید کہ ہوائے گُل ویرانے تک آ جائے


ثاقب کانپوری

No comments:

Post a Comment