تم بھی اس سُوکھتے تالاب کا چہرہ دیکھو
اور پھر میری طرح خواب میں دریا دیکھو
اب یہ پتھرائی ہوئی آنکھیں لیے پھرتے رہو
میں کب تم سے کہا تھا مجھے اتنا دیکھو
روشنی اپنی طرف آتی ہوئی لگتی ہے
تم کسی روز مِرے شہر کا چہرہ دیکھو
حضرتِ خضر تو اس راہ میں ملنے سے رہے
میری مانو تو کسی پیڑ کا سایا دیکھو
لوگ مصروف ہیں موسم کی خریداری میں
گھر چلے جاؤ بھاؤ غزل کا دیکھو
رؤف رضا
No comments:
Post a Comment