Tuesday, 23 February 2021

کبھی مکاریوں پر اپنی حیراں بھی نہیں ہوتے

 کبھی مکاریوں پر اپنی حیراں بھی نہیں ہوتے

خطائیں کرتے رہتے ہیں پشیماں بھی نہیں ہوتے

زمانے سے ہیں سجدہ ریز ہم، لیکن مِرے بھائی

فرشتے ہوں گے کیا ہم سب جب انساں بھی نہیں ہوتے

کسی کے دل میں کیا ہے؟ کیسے اندازہ کرے کوئی

بہت سے لوگ چہرے سے نمایاں بھی نہیں ہوتے

سکوں پانے کہاں جاتے ذرا سوچو یہ دیوانے

اگر دنیا میں لوگو! بیاباں بھی نہیں ہوتے

چھپانا چاہتے ہو مسکرا کر دردِ دل لیکن

تم اپنی غمزدہ آنکھوں سے پنہاں بھی نہیں ہوتے

کسی کی یاد سے روشن رہا کرتا تھا دل لیکن

دلِ برباد میں اب وہ چراغاں بھی نہیں ہوتے


منظر اعظمی 

No comments:

Post a Comment