وہ مِری بزم میں آیا ہو کبھی یاد نہیں
حالِ دل کھُل کے سنایا ہو کبھی یاد نہیں
اک سرِ راہ ملاقات تو تسلیم، مگر
خلوتوں میں بھی بلایا ہو کبھی یاد نہیں
قہقہے چھین کے آنسو مجھے دینے والے
میں نے تجھ کو بھی رُلایا ہو کبھی یاد نہیں
جو زمانے میں مِرے نام سے جانا جائے
حق کوئی اس نے جتایا ہو کبھی یاد نہیں
نیندیں راتوں کی مِری جس نے چُرا لیں جاوید
میں نے اس کو بھی جگایا ہو کبھی یاد نہیں
جاوید قریشی
No comments:
Post a Comment