بہ ہر سو خامشی سی جانے کیوں ہے
کہی بھی ان کہی سی جانے کیوں ہے
بہت کم گو فسردہ سی، مگر وہ
ہمیں لگتی بھلی سی جانے کیوں ہے
زہے سب کچھ میسر ہے پہ دل کو
ہمیشہ اک کمی سی جانے کیوں ہے
رہے ہر دم گریزاں اور نالاں
ہمیں وہ زندگی سی جانے کیوں ہے
کسی سے کوئی مطلب ہی نہیں ہے
وہ اتنی مطلبی سی جانے کیوں ہے
علی تاصف
No comments:
Post a Comment