Wednesday, 24 February 2021

دراڑیں پڑ چکی ہیں

 کہانی کا آج


دراڑیں پڑ چکی ہیں

ادھر ٹیلے کے پچھواڑے، جہاں کچھ

سفیدے، سیب، آلوچے کھڑے ہیں

شکستہ سا ہے اک معبد وہاں پر

زمانوں سے دکھائی دے یہاں پر

رِسے اب اس کی فرسودہ چھتوں سے اوس اور برکھا کا پانی

عجب تھی وہ کہانی

عجب تھی وہ کہانی، جب ادھر ٭وِدیارتھی کچھ

اسی معبد میں آئے

نوشتے آگہی کے، پستکیں بھیدوں کی پڑھنے

جلن اور جوگ کی جوالا پہ چڑھنے

کتھائیں جھڑ چکی ہیں

بہت سندر تھی اس بستی میں اک لڑکی

الوہی روپ، چہرے پر تقدس اپسراؤں سا

بدن زریں شعاعوں سا

چراتی تھی وہ بھیڑیں جا کے معبد سے پرے شاداب بیلوں میں

پڑی جھنجھٹ جھمیلوں میں

دیا دل اس نے اک ودیارتھی کو

ملن کی موہنی مدھ میں گئی کھو


سید ناصر شہزاد

٭وِدیارتھی = طالب علم

No comments:

Post a Comment