Thursday 25 February 2021

وہ گنگناتی مہکتی ہوئی حسیں شامیں

 وہ گنگناتی، مہکتی ہوئی حسیں شامیں

مِری حیات پہ پھیلی ہیں دل نشیں شامیں

غزل نے چھیڑ دیا سازِ روح کو میرے

سُروں میں ڈھلنے لگیں پھر سے نغمگیں شامیں

مصوری کی ہیں شہکار، شاعری کی دھنک

ہزاروں نقش کھِلاتی ہیں مرمریں شامیں

تمہارا ساتھ تھا یا زندگی تھی میرے ساتھ

کہیں تھیں صبحیں مِری اور تھیں کہیں شامیں

عجیب لطف تھا کیا بے خودی کا عالم تھا

خیال آیا بچھڑنے کا رو پڑیں شامیں

مِرے لیے تو حسیں خواب لے کے آتی ہیں

مِرے لیے تو سبھی کچھ ہیں کیا نہیں شامیں

مہک رہی ہے فضا یاسمیں کے پھولوں سے

تِرے لیے تو مہکتی ہیں دل نشیں شامیں

شگفتگی کا یہ احساس بارشوں میں ہوا

گل و شجر کی طرح کیسی ڈھل گئیں شامیں

ستارے بن گئے ذرے بھی میرے آنگن کے

جبیں پہ میری تو افشاں بنی رہیں شامیں

محبتوں کے حسیں سُرمئی اُجالوں میں

میں ہنس پڑی تو مِرے ساتھ ہنس پڑیں شامیں

مہک کے رہ گیا رومی مشامِ جاں اپنا

گُلوں کی طرح سے دل میں اُتر گئیں شامیں


رومانہ رومی

No comments:

Post a Comment