Thursday, 25 February 2021

بجھتی ہوئی آنکھوں کا اکیلا وہ دیا تھا

 بُجھتی ہوئی آنکھوں کا اکیلا وہ دِیا🪔 تھا

ہجراں کی کڑی شب میں اذیت سے لڑا تھا

رُکتا ہی نہیں تجھ پہ نگاہوں کا تسلسل

کل شام تِرے ہاتھ میں کنگن بھی نیا تھا

اک چشمِ توجہ سے اُدھڑتا ہی گیا تھا

وہ زخم کہ جس کو بڑی محنت سے سِیا تھا

برگد کے اسی پیڑ پہ اتریں گے پرندے

سیلاب زدہ گھر کے جو آنگن میں کھڑا تھا

درویش کی کُٹیا کے یہ لاشے پہ بنی ہے

وِیران شکستہ سی حویلی پہ لکھا تھا

تصویر میں اس کو ہی سرِ بام دکھایا

مزدور زمانے کے جو پاؤں میں پڑا تھا

وہ زخم جُدائی کا بھلا کیسے دِکھے گا

ملبہ جو مِرے جسم کا اندر کو گرا تھا

بابر ہو کہ بہکا ہوا جھونکا، یا ستارہ

تیری ہی گلی میں ہمیں جاتا وہ مِلا تھا


احمد سجاد بابر

No comments:

Post a Comment