نہیں یہ سب مِری دیوانگی ہے
کوئی تصویر بھی کیا بولتی ہے
اسے اب قہقہوں میں دفن کر دو
یہ خاموشی بہت کچھ جانتی ہے
سحر کے رنگ گہرے ہو گئے ہیں
کہ میری نیند پوری ہو گئی ہے
مجھے کیا خوف سورج ڈوبنے کا
مِری اپنی ہی اتنی روشنی ہے
ہوا پیروں سے اتنا بھی نہ الجھے
میری زنجیر ٹوٹی جا رہی ہے
گئے، دیوار چھُو کر لوٹ آئے
یہیں تک کھیل سے وابستگی ہے
ابھی تک کیوں تِری پرواہ نہیں تھی
تِرا دکھ آج ہی کیوں قیمتی ہے
جھجکتا ہوں اسے الزام دیتے
کوئی امید اب بھی ٹوکتی ہے
کبھی ماضی کا آئینہ بھی دیکھو
اندھیروں کی بھی اپنی روشنی ہے
شارق کیفی
No comments:
Post a Comment