Tuesday, 23 February 2021

موسم گل بھی مرے گھر آیا

 موسمِ گل بھی مِرے گھر آیا

جانے والا نہ پلٹ کر آیا

آج یوں دل نے بہائے آنسو

آنکھ سے اشک نہ باہر آیا

لُٹ گئی ضبط کی بستی آخر

تیری یادوں کا جو لشکر آیا

آنکھ اب تیری جدائی پہ کھلی

ہوش میں تجھ کو گنوا کر آیا

ایک ہی نقش میں تھے نقش تمام

سامنے پھر نہ وہ منظر آیا

دھوپ میں اس کی محبت کا خیال

ابر جیسے مِرے سر پر آیا

کالے دریا تو کیے کتنے عبور

راہ میں اب کے سمندر آیا

کون کرتا مِری راہیں دشوار

آڑے آیا تو مقدر آیا💢

اس نے پھینکا تھا اگر پھول رشید

پھر یہ کس سمت سے پتھر آیا


رشید کامل

No comments:

Post a Comment