سوزِ الم سے دور ہُوا جا رہا ہوں میں
وہ تو جلا رہے ہیں بُجھا جا رہا ہوں میں
مانوسِ التفات ہوا جا رہا ہوں میں
دیکھ اے نگاہِ ناز مٹا جا رہا ہوں میں
جلووں کی تابشیں ہیں کہ اللہ کی پناہ
رنگیں تجلیوں میں گھِرا جا رہا ہوں میں
یہ آتے جاتے ہے نگہِ غیظ کس لیے؟
لے آج تیرے در سے اٹھا جا رہا ہوں میں
راہوں سے آشنا ہوں نہ منزل شناس ہوں
لے جا رہا ہے شوق چلا جا رہا ہوں میں
کیفیت اس نگاہ کی ہمدم بتاؤں کیا؟
اک موج ہے کہ جس میں بہا جا رہا ہوں میں
یا ابتدائے عشق میں غم میرے ساتھ تھا
یا غم کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا ہوں میں
کیا چیز ہے نویدِ رہائی کہ ہم نفس
جیسے قفس سمیت اڑا جا رہا ہوں میں
میری تباہیوں پہ زمانے کو رشک ہے
تم تو مٹا رہے ہو بنا جا رہا ہوں میں
شعری یہ کس نے آج نظر مجھ سے پھیر لی
اپنی نظر سے آپ گِرا جا رہا ہوں میں
شعری بھوپالی
No comments:
Post a Comment