صحرا لگے کبھی کبھی دریا دکھائی دے
حیران ہوں میں کیا ہے جہاں کیا دکھائی دے
آواز کوئی ہو میں اسی کی صدا سنوں
ہر سمت مجھ کو ایک ہی چہرہ دکھائی دے
نادانیوں کا دل کی بھی کوئی علاج ہو
بن کے وہ غیر بھی مجھے اپنا دکھائی دے
مجھ کو تو انجمن ہی لگا اپنی ذات میں
اک شخص دوسروں کو جو تنہا دکھائی دے
کس کا یقین کیجیے، کس کا نہ کیجیے
ہر چارہ گر مجھے تو لٹیرا دکھائی دے
جاوید اپنی اپنی بصیرت کی بات ہے
سب دن کہیں مجھے تو اندھیرا دکھائی دے
جاوید قریشی
No comments:
Post a Comment