Wednesday 24 February 2021

غیب سے فتح کی برفباری رہے

 غیب سے فتح کی برفباری رہے

رزمیہ ترانہ


غیب سے فتح کی برفباری رہے

جنگ جاری رہے، جنگ جاری رہے

میرے بیٹے یہ ماں تجھ پہ واری رہے

جنگ جاری رہے، جنگ جاری رہے


آ تیری مانگ میں چاند تارے بھروں

تجھ کو دولہا بنا کر میں رخصت کروں

سر پہ سہرے کے بدلے کفن باندھ دوں

جرأت و عزم تیری سواری رہے

جنگ جاری رہے، جنگ جاری رہے


تجھ سے ہے رنگ و خوشبو چمن در چمن

تُو خزاں میں بھی ہے نوبہارِ وطن

جانِ جاں تیرا تمغہ ہے زخمِ بدن

تجھ سے وادی میں بادِ بہاری رہے

جنگ جاری رہے، جنگ جاری رہے


خار کی نوک سے پھول کے رنگ تک

زعفرانی ہواؤں کے آہنگ تک

آئینوں تک ہی کیا ایک ایک سنگ تک

یہ ہماری زمیں ہے ہماری رہے

جنگ جاری رہے، جنگ جاری رہے


منتظر ہیں شہادت کی پریاں اگر

تو چیر دے اپنے ہاتھوں سے میرا جگر

نازِ دنیا کی ناراضگی سے نہ ڈر

تجھ سے راضی فقط ذاتِ باری رہے

جنگ جاری رہے، جنگ جاری رہے


غیب سے فتح کی برفباری رہے

جنگ جاری رہے، جنگ جاری رہے


سلیم ناز بریلوی

No comments:

Post a Comment