Wednesday 24 February 2021

گلہ ہے بے وفائی کا نہ شکوا کج ادائی کا

 گِلا ہے بے وفائی کا نہ شکوا کج ادائی کا

عجب لذت فزا ہے درد زخمِ آشنائی کا

تِری راہِ طلب میں ناتوانی میری حائل ہے

نتیجا دیکھئے ہوتا ہے کیا بے دست و پائی کا

ہوائے موسمِ گل ہے تِرے میکش نہ سنبھلیں گے

کریں گے ٹکڑے ٹکڑے آج دامن پارسائی کا

نزاکت دیکھ کر خنجر بکف قاتل کو بول اٹھی

خدا ہی حافظ ہے اس نازک کلائی کا

اسیرانِ محبت کو اسیری عین راحت ہے

ستم ڈھاتا ہے آ جانا تصور بھی رہائی کا

سرِ بالیں تم آ کر مجھ سے آنکھیں کیوں چراتے ہو

بھلا یہ بھی کوئی موقع ہے الفت آزمائی کا

عبث اے بختِ خُفتہ قیس کو رُسوا نہ کرنا تھا

لگا کر آہ کے دامن میں دھبا نارسائی کا


قیس آروی

ضمیرالحق


بہارستانِ خلد

No comments:

Post a Comment