Wednesday, 24 February 2021

تیرے شیدائی ازل ہی سے ہیں مرنے والے

 تیرے شیدائی ازل ہی سے ہیں مرنے والے

مر مٹیں گے نہیں ہم موت سے ڈرنے والے

کم نکلتے ہیں وفا عشق میں کرنے والے

نام کر جاتے ہیں دنیا میں وہ مرنے والے

ہم سے پردہ کی ستم گار ضرورت کیا ہے

جیتے ہیں دیکھ کے صورت تیری مرنے والے

چاہنے والوں کے کیا دَم پہ بنا رکھی ہے

کچھ خبر بھی ہے تجھے روز سنورنے والے

اٹھ چکا حشر تو اب اور اٹھیں گے فتنے

وہ نئی چال سے ہیں آج گزرنے والے

تشنگی میری بُجھاتے دَمِ خنجر سے

دَم تو الفت کا میری خوب ہیں بھرنے والے

اس کا قائل ہے زمانہ یہ بجا ہے ارشاد

وصل کی دے کے زباں ہم ہیں مُکرنے والے

وار ہوں نِیم نگاہی کے بھی اس کے ہمراہ

میری گردن پہ چھُری ناز سے دھرنے والے

اپنی شہرت کے لیے خیر مناؤ ان کی

کون پوچھے گا اگر مر گئے مرنے والے

صفِ مژگاں سے ذرا بچ کے نکل اے بیدل

تِیر رکھے ہیں یہاں دل میں اترنے والے


عبداللہ بیدل

باغ فردوس

No comments:

Post a Comment