تیرے شیدائی ازل ہی سے ہیں مرنے والے
مر مٹیں گے نہیں ہم موت سے ڈرنے والے
کم نکلتے ہیں وفا عشق میں کرنے والے
نام کر جاتے ہیں دنیا میں وہ مرنے والے
ہم سے پردہ کی ستم گار ضرورت کیا ہے
جیتے ہیں دیکھ کے صورت تیری مرنے والے
چاہنے والوں کے کیا دَم پہ بنا رکھی ہے
کچھ خبر بھی ہے تجھے روز سنورنے والے
اٹھ چکا حشر تو اب اور اٹھیں گے فتنے
وہ نئی چال سے ہیں آج گزرنے والے
تشنگی میری بُجھاتے دَمِ خنجر سے
دَم تو الفت کا میری خوب ہیں بھرنے والے
اس کا قائل ہے زمانہ یہ بجا ہے ارشاد
وصل کی دے کے زباں ہم ہیں مُکرنے والے
وار ہوں نِیم نگاہی کے بھی اس کے ہمراہ
میری گردن پہ چھُری ناز سے دھرنے والے
اپنی شہرت کے لیے خیر مناؤ ان کی
کون پوچھے گا اگر مر گئے مرنے والے
صفِ مژگاں سے ذرا بچ کے نکل اے بیدل
تِیر رکھے ہیں یہاں دل میں اترنے والے
عبداللہ بیدل
باغ فردوس
No comments:
Post a Comment